Nawaz Sharif نواز شریف کی منی لانڈرنگ




مئی 92کی بات ہے کہ ایک طیارہ جنیوا سے لاہور ائیر پورٹ پر اترا ماڈل ٹاون سے سات بکس اس طیارے میں لوڈ کیئے گئے اور جنیوا بھیجے گئے ، یہ بات علم میں آئی کہ اس میں فارن ایکسچینج تھا بیرئیر سرٹیفیکٹس تھے ۔ اس وقت بھی لوگ ہمیں اطلاع دیتے تھے کہ نواز شریف کے آدمی لنڈی کوتل سے لے کر کراچی تک فارن ایکسچینج بیرر سرٹیفیکٹ خرید رہے ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ضیاء دور میں ایک فیکٹری واپس ملی تھی اس کے بعد 77فیکٹریوں کا حساب دینا چاہیئےٍ ا ایم آئی صوبہ پنجاب کے اس وقت کے سربراہ بریگیڈئیر محمد یوسف
  انکشافات صفحہ نمبر48
سابق وزیر داخلہ اور ایف آئی اے کے سابق بڑے عہدیدار رحمان ملک نے نواز شریف خاندان کی جائدادوں کے بارے میں ایک رپورٹ تیار کی جس کی نقول انہوں نے آرمی چیف جنرل جہانگیرکرامت، اور شریف خاندان کے دیرینہ دوست اس وقت کے صدر پاکستان رفیق تارڑ کوبھیجوائیں

اس رپورٹ میں رحمٰن ملک نے شریف خاندان کے ایوان فیلڈ ہاؤس فلیٹس اور غیر ملکی اکاؤنٹس کے استعمال کے بارے میں تفصیلا ذکر کیا تھا ۔ واضح رہے کہ فاروق لغاری کی طرف سے نظیر حکومت کے خاتمے کے بعد رحمٰن ملک کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا گیا تھا
 (1)جو بعد میں نواز شریف حکومت کے دوران ضمانت پر رہا ہوا اور پاکستان سے بھاگ کر برطانیہ پہنچ گیا اس کی تیار کردہ رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد نوازشریف حکومت نے اس کو ملازمت سے فارغ کردیا
 ( فروری 2008کے انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی کی نئی حکومت میں رحمٰن ملک کو وزیر اعظم کا مشیر داخلہ بنایا گیا )
صدر رفیق تارڑ کے نام رحمٰن ملک ایڈیشنل ڈائیرکٹر جنرل ایف آئی اے کے 20 ستمبر1998کو لکھے گئے خط کے مندرجات
بخدمت جناب رفیق تارڑ صاحب صدر مملکت حکومت پاکستان
جناب
میں کسی حب الوطنی کے دعوے کے بغیر ایڈیشنل ڈائیریکٹر جنرل ایف آئی اے اسلام آبادکی حیثیت سے آپ کے علم میں پاکستان میں ہونے والی شدید ترین بدعنوانیوں کی رپورٹ پیش کرتا ہوں ۔
میاں نواز شریف موجودہ وزیر اعظم پاکستان کی بدعنوانیوں کی رپورٹ قانون اور تحقیقات کے بعد اس طر ح پیش کررہا ہوں اور میں نے خود کو ہمیشہ صرف اللہ کو سامنے جواب دے سمجھا ہے 1993میں بھی میں نے معین قریشی دور میں حکم ملنے پر پیلی ٹیکسی اسکیم میں بدعنوانیوں کی تحقیق (FIRکے بعد) مختلف ذرائع سے میاں نواز شریف فیملی کے خلاف شکایات موصول ہونے کے بعد مجھے ان معاملات کی تحقیق کرنے کا حکم دیا گیا ۔ میری رپورٹ کے مندرجات کا خلاصہ یوں ہے۔
A۔شریف فیملی کی منی لانڈرنگ کیسے ہوئی۔
B۔حوالہ گروپ پشاور کے ذریعے رقوم کی منتقلی۔
C۔شیخ سعید کے ذریعے گندم کی درآمد۔
D۔ڈائیو ساؤتھ کوریا کو لاہور اسلام آباد موٹر وے کا ٹھیکہ کیسے دیا گیا
E۔کالا دھن سفید کرنے کے ضمن میں جعلی اکاؤنٹس کی تحقیقات۔
F۔ شوگر ملیں ناجائیز طور پر کیسے لگائی گئیں ۔D۔1988-89ء میں شریف خاندان نے حوا
G۔ شریف خاندان کی طرف سے ڈیفالٹ کے باوجود لئے گئے قرضے
I۔میاں شریف کے دوست کو ڈی جی سیمنٹ کی فروخت۔
J شریف خاندان کے برطانوی کاروباری۔
K۔ مسلم کمرشل بینک کی نج کاری میں گھپلے۔
L۔مہران بینک سے نکلوائی گئی بھاری رقوم۔
( اوپر دی گئی تمام بدعنوانیوں کے ثبوت ملکی و غیر ملکی بینکوں کے ریکارڈ سے لئے گئے ہیں )
27جولائی1997کو نواز شریف کے دو نمائندوں نے مجھے بے نظیر ، آصف علی زرداری اور نصیر اللہ بابر کے خلاف گواہی دینے پر احتساب بیورو کا نائب سربراہ بننے کی پیشکش کی، جس سے انکار پر مجھے سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں گئیں ۔

29جولائی 1997کومجھے 4گھنٹوں کے لئے وزیر اعظم سیکرٹریٹ لے جایا گیا اور پھر دباؤ ڈالا گیا انکار پر مجھے ڈیتھ سیل Death Cellمیں قید تنہائی میں ڈال دیا گیا آخر کار سپریم کورٹ سے میری ضٗمانت ہوئی لیکن مجھے ڈیوٹی جوائین کرنے سے روک دیا گیا اسی دوران اسلام آباد میں مجھ پر قاتلانہ حملہ کیا گیا ،آخر کا رمیں خدا کی مدد سے مندرجہ زیل تحقیقات کرنے میں کامیاب ہوا۔

A۔ عمان بینک کے ذریعے 140ملین نواز شریف کے 43رشتے داروں میں تقسیم کئے گئے۔
B۔ڈالر بیریر سرٹیفیکٹس اور ٹریولز چیکوں کے ذریعے سلمان ضیاء ، محمد رمضان اور اصغر علی کے جھوٹے کھاتوں میں رقوم منتقل ہوئیں اور پھر ان اکاؤنٹس سے جاوید کیانی کے ذریعے کھولے گئے تین دوسرے اکاؤنٹس جو کہ کاشف مسعود قاضی کے نام تھے رقوم منتقل کی گئیں ۔ پھر ان کھاتوں کی ضمانت پر حدیبیہ انجینئرینگ اور حدیبیہ پیپرز کے نام قرضے جاری کئے گئے
c۔ سلمان ضیاء کے جعلی اکاونٹ کے ذریعےShamrook) ( آف شور کمپنی کو رقوم منتقل ہوئیں جس سے لندن میں فلیٹ نمبر16.16A اور17.17A خریدے گئے
لہ ڈیلرز پشاورکے ذریعے56کروڑ روپے فارن ایکسچینج کی صورت میں بیرون ملک بھیجے۔1988-89میں بینکّ ف عمان شارجہ سے اسی بینک کی لاہور برانچ میں 758000 ڈالر منتقل ہوئے۔ اور بعد ازاں195.20ملین روپے شریف خاندان میں تقسیم کئے گئے۔
ؑ ؑ Eجاوید کیانی کے تین جعلی اکاونٹس میں 3799762ڈالر جمع کرائے گئے جن پر4920000ڈالر نکلوائے گئے۔ کاشف مسعود اور سکندرہ مسعود کے اکاؤنٹ میں منتقل کئے گئے اس کے بعد بینک آف امریکہ اور سٹی بینک پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ حدیبیہ انجیرینگ اور حدیبیہ پیپرز کے نام پر قاضی فیملی کے اکاونٹس کی بنیاد پر قرضے جاری کریں ۔
Fامریکہ سے گندم کی پاکستان منتقلی کے بہت سارے معاہدے جاوید کیانی کی Star Trading Marine Shippeng کمپنی کے ساتھ نواز شریف کے سابق دور حکومت میں کئے گئے۔ جاوید کیانی نے اپنی بیگم عطیہ کیانی اور ماں مریم کیانی کے نام حبیب بینک اے جی زیوریج میں اکاونٹ نمبر202120-1012581اور102120-101265کے تحت کھلوائے واضح رہے کہ مذکورہ برانچ میں خود جاوید کیانی کا اکاونٹ نمبر 2021201265ہے
G۔ جاوید کیانی کی طرح سلمان ضیاء بھی ایک ایسا کردار ہے جس زریعے شریف خاندان نے بدعنوانیوں اور بے قائدگیوں سے کمائی گئی دولت بیرون ملک منتقل کی ۔ سلمان ضیاء کے اکاونٹ میں 2081038ڈالر اس طرح منتقل کئے گئے۔
1۔750000لاکھ ڈالر کے ٹریولر چیک 18 اکتوبر 1992کو
2۔1499010-ڈالر یونین بینک سوئیزر لینڈ سے 2جنوری 1993کو
3۔ 94405ڈالر یونین بینک سوئیزر لینڈ سے 6جنوری 1993کو
4۔100000لاکھ ڈالر کے ٹریولر چیک 9 مئی1993کو
5۔879924ڈالر 21جون 1993کو
6۔1لاکھ ڈالر کے ٹریولر چیک 19 اکتوبر 1994کو
7۔ 166297 ڈالر 9 دسمبر1994کو
H۔یہ تو وہ رقوم تھیں جو وقتا فوقتا سلمان ضیاء کے اکاونٹس میں منتقل کی گئیں ان رقوم کا مالک شریف خاندان تھا جو مسلسل اس عمل کی نگرانی کررہا تھا ۔ اس طرح ملکی دولت تیزی کے ساتھ غیر ملکی اکاؤنٹس میں منتقل کی گئیں اور پھر وہاں سے بیرون ملک پہنچ گئی جہاں شریف خاندان نے پورا ایک نیٹ ورک قائم کررکھا تھا جس کے ذریعے رقم وصول کی جاتی اور جائدادیں خریدی جاتیں یا پھر اسی رقم کو جواز بنا کر مزید قرضے حاصل کئے جاتے
اس کے علاوہ ایف آئی اے ( FIA ) نے سلمان ضیاء کے اکاونٹ سے جاوید کیانی اور شیخ سعید کے اکاونٹ میں رقم کی اس منتقلی کا کھوج لگایا
1۔3900ڈالر مریم بیگم کے اکائنٹ نمبر 202120.10126حبیب بنک اے جی زیوریج لاہور میں 28اکتوبر1993کو منتقل ہوئے۔
2۔11042ڈالر جاوید کیانی کے اکاونٹ نمبر 101226میں 28 ستمبر کو منتقل ہوئے
3۔62610ڈالر اسٹار ٹریڈنگ نیو یارک کو 4جولائی 1993کو منتقل ہوئے
اسی طرح شریف خاندان کے جعلی اکاونٹس کے حوالے سے سب سے زیادہ متنازعہ فیکٹری حدیبیہ انجینیرنگ لمیٹیڈ کو سلمان ضیاء کاشف مسعود قاضی نزہت گوہر وغیرہ کے اکاونٹس سے جو رقم منتقل ہوئی اس کی تفصیل کچھ یوں ہے
1سلمان ضیاء کے جعلی اکاونٹ نمبر 260133سے کاشف مسعود کے نام بینک آف امریکہ لاہور برانچ میں 750000ڈالر خرید کر محمد رمضان کے جعلی اکاونٹ میں سے ادا کئے گئے
3۔500000ڈالر کی مزید رقم نزہت گوہر کے اکاونٹ سے کاشف مسعود کو منتقل کی گئی ۔ واضح رہے کہ نزہت گوہر کا بینک اکاونٹ کھولتے وقت اسحاق دار کے لاہور والے گھر کا پتہ درج کرایا گیا تھا لکھائی کے ماہرین کے مطابق یہ اکاونٹ جاوید کیا نی نے کھولے اور جعلی دستخط کئے گئے
J۔مجموعی طور پر کاشف قاضی کے اکاونٹ میں 20لاکھ ڈالر جمع کرائے گئے اور ان پر حدیبیہ انجینیرنگ نے 200ملین کا بھاری قرض حاصل کیا ۔ یہ اعداد وو شمار FIRنمبر12/94سے لئے گئے ہیں جو 12نومبر1994کو درج ہوئی اعداد و شمار کے حوالے سے یہ وہ حقائق تھے جن کو میاں نواز شریف خاندان آج تک چھپا نہیں سکا ہے
K۔ اس کے بعد میاں نواز شریف خاندان کی ہدایت پر جاوید کیانی نے کاشف مسعود قاضی ، سکندرہ مسعود قاضی اور نزہت گوہر کے نام سے بینک آف امریکہ لاہور برانچ میں تین مزید جعلی کھاتے کھولے اور بینک ریکارڈ کے مطابق ڈالر بیریر سرٹیفکیٹ کی صورت میں سلمان ضیاء کی جانب سے کاشف مسعودکے اکاونٹ میں بھاری رقوم جمع کروائی گئیں ۔ واضح رہے کہ ان جمع شدہ رقوم سے نواز شریف کی حدیبیہ انجینیرنگ لمیٹیڈ کو قرضے جاری کئے گئے ۔؛ اس مل کے ڈائیریکٹروں میں حسین نواز ، مسز کلثوم نواز شریف، میاں شریف ( مرحوم) اور میاں شہباز شریف شامل ہیں ۔ بینک ریکارڈ سے سلمان ضیاء کے جعلی اکاونٹ اور شریف خاندان کا اس مل کا تعلق ثابت ہو چکا ہے ۔
1جنوری ، فروری 1993میں سلمان ضیاء کے جعلی اکانٹ سے 350000 ڈالر شریف خاندان کے ذریعے P/O BOX659 Torotola Britain Shamrock Consultingنامی فرم کو الائیڈ بینک ، اسٹاک ایکسچینج لندن کے اکاونٹ میں سے ادا کئے گئے بعد میں یہ رقم زیورچ کی ایک فرم کے ڈائیریکٹرHans Rodolfکے نام سے منتقل کی گئی جو کہ شریف خاندان کے لئے کام کرتی ہے اس کے علاوہ نوازشریف کے خاندان نے سوئیزر لینڈ کی فرم کے جنرل منیجر URS Speeker کی خدمات برطانیہ میں جائداد کی خریداری کے لئے حاصل کیں
M۔ نواز شریف اس کے بعد برطانیہ میں جائداد کی خریداری کی طرف متوجہ ہوئے اور انہوں نے HMLandرجسٹری کے مطابق30کروڑ روپے سے فلیٹ نمبر16.16A اور17.17A لندن میں خریدے ایوان فیلڈ ہاؤس نامی ان فلیٹس کی خریداری کو حتی المقدور کوشش کرکے مالیاتی اداروں اور قرض دہندہ بینکوں سے چھپایا گیا اس کے بعد ایوان فیلڈ ہاؤس فلیٹ نمبر16.16A اور17.17A نمبروں کے ان فلیٹس کے لئے رقوم کی منتقلی 1993اور1995-96میں Broons Head Dibblupion نامی فرم کے ذریعے کی گئی ناجائز طریقے سے حاصل کی گئی اس جائداد کا شریف خاندان کی جانب سے انکم ٹیکس
گوشواروں میں زکر نہیں کیا گیا ۔
جناب صدر آخر میں میں فیصلہ آپ پر چھوڑتا ہوں کہ کیا ایسے شخص کو ملک وزیر اعظم رہنے کا کوئی حق ہے ؟

رحمٰن ملک
ایڈیشنل جنرل FIAاسلام آباد
نوٹ رحمٰن ملک نے اس خط کے ساتھ 200 صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ بھی ایوان صدر کو ارسال کی ۔ اس خط کے مندرجات ڈیلی آبزرور اور انڈی پنڈنٹ برطانیہ میں اور بھارت کے اخبارات میں شائع ہو چکے ہیں (1)
20 اکتوبر1998 کو برطانوی اخبار ’’انڈی پنڈنٹ) نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا کہ شریف خاندان نے دھوکہ دہی کے ذریعے کروڑوں ڈالر بیرون ملک منتقل کیے ہیں ۔ لندن کے قیمتی علاقے پارک لین میں 30لاکھ مالیت کے چار فلیٹ ان کی مالیت ہیں ایک فلیٹ میں ان کا بیٹا قیام پذیر ہے

3جولائی1994کو ایف آئی اےFIAنے اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا کہ یونس حبیب ( مہران بنک )کو ٹیلی فون پر دی ہوئی ہدایت پر قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مہران بنک لاہور نے ایک دن میں شریف گروپ کی چوہدری شوگر ملز کو 4کروڑ 94لاکھ روپے کا قرضہ جاری کیا (2)
قاضی حسین احمد نے کہا نواز شریف قومی ایجنڈے کے نام پر قوم کو دھوکہ دے رہے ہیں وہ خود کروڑوں روپے کے نادہندہ ہیں ۔ انھوں نے منشا کے ذریعے20کروڑ ڈالر باہر بھیجے ہیں ۔(

27ستمبر1998کو برطانوی اخبار ا’’ّآبزرور‘‘ نے نواز شریف کی کرپشن کے بارے میں ایک رپورٹ شائع کی جسے ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائرریکٹر جنرل رحمان ملک نے اخبار کے حوالے کیا تھا ۔ رحمان ملک کے مطابق دوسو صفحات پر مشتمل یہ رپورٹ ایف آئی اے نے تیار کی تھی اور اس کی نقل صدر تارڑ اور جنرل کرامت کو بھی فراہم کر دی گئی تھی۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ نواز شریف نے ایک ارب90کروڑ ڈالر سے چار فلیٹ خریدے ۔ لاکھوں پونڈ بیرون پاکستان منتقل کیے۔ ایگزٹ لسٹ میں نام شامل ہونے کے باؤجود رحمان ملک لندن فرار ہو گئے تھے ۔ صدر تارڑ نے کہا کہ رحمان ملک کی رپورٹ ملی تھی ۔ یہ حکومت کو بدنام کرنے کی سازش ہے ۔ نوازشریف نے کہا کہ’’ آبزرور‘‘ کے الزامات چار سال پرانے ہیں
رحمان ملک نے لندن میں کہا کہ میں چند دنوں میں مزید سنسنی خیز انکشافات کروں گا ابھی جو کچھ بتایا ہے وہ اصل حقائق کا ایک فیصد بھی نہیں ہے سیف الرحمان نے مجھے جوابی کارروائی پر مجبور کردیا ہے قاضی حسین احمد نے کہا کہ کہ’’ آبزرور‘‘ کی رپورٹ پر نواز شریف کے خلاف مقدمہ چلنا چاہیے۔ (3)


حوالہ جات



(1) بد عنوانی کی حکمرانی صفحہ نمبر 283تا291 مصنف مجاہد حسین
(2)بے نظیر حکومت کا عروج و زوال صفحہ نمبر 164 مصنف پروفیسر غفور احمد۔
(3)نواز شریف اقتدار سے عتاب تک صفحہ نمبر 374پروفیسر غفور احمد
(4)بدعنوانی کی حکمرانی۔ صفحہ نمبر مصنف مجاہد حسین
(5)غدار کون نواز شریف کی کہانی ۔ صفحہ نمبر204/203 مصنف سہیل وڑائچ
(6)نواز شریف اقتدار سے عتاب۔ تک صفحہ نمبر406 مصنف پروفیسر غفور احمد

(6)  انکشافات صفحہ نمبر48
*************