فوج کے ساتھ نواز شریف کا ٹکراؤ





ٌٌٌٌ* فوجی قیادت کے ساتھ داؤ پیج ٌ ٌٌٌ*


ا نہوں نے کہا ’’ پیر صاحب آپ دیکھ لیجیے گا میں نہ تو بھٹو ہوں ، نہ محمد خان جونیجو، مجھے اگر چھ ماہ بھی مل گئے تو میں ان جرنیلوں کو سیدھا کرکے رکھ دوں گا ‘‘ یہ بات کسی نہ کسی طرح ناشتے کی میز سے نکل کر جی ایچ کیو تک بھی جا پہنچی جس پر جرنیل حضرات کافی برا فروختہ ہوئے اور چیف آف آرمی اسٹاف نے پیر صاحب سے پچھوایا کہ کیا میاں نواز شریف نے واقعی ایسی کوئی بات کہی ہے جس پر پیر صاحب نے اپنے مخصوس انداز میں جواب دیا کہ ’’ ہاتھ کا بنا ہوا،فخر اور نشان اب اپنے بنانے والوں کو ہاتھ دکھانے کی سوچ رہا ہے تو اس پر حیرت نہیں ہونا چاہئے۔
یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ اس خاندان نے ہمیشہ ہی اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لئے نت نئے حربوں کو استعمال کیا ہے۔ایک وقت تو وہ تھا جب اس خاندان کے

اکابرین اور بزرگ فوجی اداروں سے ٹھیکے حاصل کرنے اور ٹینڈر پاس کروانے اور اس کے بعد بلوں کے حصول کے لئے ایک دفتر سے دوسرے دفتر تک جوتیاں چٹخاتے پھرتے تھے پھر اچانک ان پر قسمت کی دیوی مہربان ہونے لگی جس کے نتیجے میں پہلے اتفاق فونڈری ملی پھر انڈسٹریز ملیں پھر پنجاب کے بڑے صنعتکا ر بنے پھر وزارت ملی اس سب کے لئے بحر حال مختلف فوجیوں کی سرپرستی حاصل کی تھی خواہ وہ اتفاق فونڈری کی مصنوعات کی فروخت کا معاملہ ہو یا پھر سیاست میں انٹری کا معاملہ ہر ہر قدم پر شریف خاندان افواج پاکستان کا مرحون منت رہا ہے جب تک ان کے پاس صوبائی وزارت خزانہ تھی اس وقت تک تو اس خاندان میں بڑی ہی عاجزی و انکساری تھی مگر پھر اچانک ہی وزارت اعلیٰ ملنے کے بعد یکدم پاکستان کے وزیر اعظم ہاؤس کے مالک بن بیٹھے ان اچانک انقلابات کے نتیجے میں اس خاندان کا رویہ بدل گیا انہوں نے اقتدار میں آنے کے بعد سب سے پہلا جو کام کیا وہ یہ تھا جن جن کی بدولت وہ اقتدار میں آئے تھے ان سب کی ایسی تیسی کرنا شروع کردی جیسا کے نواز شریف نے خود اس طرح سے اظہار کیا
نواز شریف نے جو کہ اتفاق فونڈری اور اتفاق گروپ اور اپنی دولت کے ایک ایک پیسے کے لئے اگرچہ پاک فوج کے مرحون منت ہیں کیونکہ یہ پاک فوج ہی ہے جس کے مختلف پروجیکٹوں میں مختلف مصنوعات سپلائی کرکے اس قدر بڑی اسٹیٹ میاں شریف اور ان کے صاحبزادوں نواز شریف ، شہباز شریف اور عباس شریف نے قائم کی شریف فیملی کے حالات اور تاریخ کا جائیزہ لیا جائے تو یہ حیران کن بات سامنے آئے گی کہ نواز شریف نے اپنے ہر دور اقتدار میں ہر دفعہ ہی فوج سے بگاڑ لی ہے حالانکہ وہ، ان کا خاندان اور ان کی جماعت مسلم لیگ کے بارے میں ہمیشہ ہی یہ تصور رہا ہے کہ وہ آرمی کے ساتھ ہیں خود نواز شریف کو جنرل ضیاء الحق نے جنرل جیلانی کے ذریعے دریافت کیا تھا مگر اس کے باؤجود ہمیشہ ہی نواز شریف کا فوج کے ساتھ ٹکراؤ رہا ہے
نواز شریف نے پہلی باردسمبر1990 ء سے جولائی 1993 ء تک حکومت کی
 دوسری باران کی حکومت1997ئسے لے کر12 اکتوبر  1999 ء تک قائم رہی

 ان کے دور حکومت کا اگر جائیزہ لیا جائے تو صورت حال کچھ اس طرح سے سامنے آئے گی۔ 

ان دونوں ادوار میں پانچ چیف آف آرمی اسٹاف رہے جن کے نام یہ ہیں:

 جنرل مرزا اسلم بیگ


 جنرل آصف نواز

 جنرل عبدالوحید کاکڑ
 جنرل کرامت جہانگیر
 جنرل پرویز مشرف 
پاک فوج کے ان پانچوں جنرلوں سے نواز شریف کے تعلقات انتہائی خراب رہے ہیں ان پانچ جنرلوں میں دو جنرل مرزا اسلم بیگ اور جنرل کرامت جہانگیر وہ جنرل بھی ہیں جن کی کوششوں اور سرپرستی کے نتیجے میں نواز شریف اور ان کی جماعت مسلم لیگ( ن) کو اقتدار ملا ان دونوں ادوار میں نواز شریف نے باقائدہ کوشش کی کہ پاک فوج کے چیف آف اسٹاف کے ساتھ ہر اس نزاعی موقع پر جب اختلافات پیدا ہوئے تو انہوں نے احتیاط کا دامن تیزی کے ساتھ اپنے ہاتھ سے نکالتے ہوئے ہر طرح سے اس تنازعہ کو جنگ میں بدلنے کی بھر پور کوشش کی جس کا ایک ہی نتیجہ نکلتا رہا ہے نواز شریف کا ایوان اقتدار سے رخصت ہوجانا ایسا صرف پاک فوج کے ساتھ ہی نہیں کیا گیا بلکہ ملک کے ہر مقتدرادارے اور شخصیت کے ساتھ کیا گیا پاک فوج کے ساتھ کیا کچھ کیا گیا اس کی ایک جھلک اس طرح سے ملاحظہ کیجیے .



ٌٌٌٌ* جنرل مرزا اسلم بیگ کے ساتھ ٹکراؤکا آغاز ٌ ٌٌٌ*


حکومت میں آنے کے فوراً بعد نواز شریف نے جام صادق علی مرحوم کے ذریعے پیر صاحب کو ایوان وزیراعظم میں ناشتہ کی دعوت دی جس کے دوران انہوں نے کہا ’’ پیر صاحب آپ دیکھ لیجیے گا میں نہ تو بھٹو ہوں ، نہ محمد خان جونیجو، مجھے اگر چھ ماہ بھی مل گئے تو میں ان جرنیلوں کو سیدھا کرکے رکھ دوں گا ‘‘ یہ بات کسی نہ کسی طرح ناشتے کی میز سے نکل کر جی ایچ کیو تک بھی جا
پہنچی جس پر جرنیل حضرات کافی برا فروختہ ہوئے اور چیف آف آرمی اسٹاف نے پیر صاحب سے پچھوایا کہ کیا میاں نواز شریف نے واقعی ایسی کوئی بات کہی ہے جس پر پیر صاحب نے اپنے مخصوس انداز میں جواب دیا کہ ’’ ہاتھ کا بنا ہوا،فخر اور نشان اب اپنے بنانے والوں کو ہاتھ دکھانے کی سوچ رہا ہے تو اس پر حیرت نہیں ہونا چاہئے کہ اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔اس پر جنرل اسلم بیگ اور ان کے رفقا ء کے کان کھڑے ہوئے اور انہوں نے مخصوص فوجی انداز میں اپنے مہرے آگے بڑھانے شروع کردیئے جس کے نتیجے میں نواز شریف حکومت کو اپنے پہلے تین مہینوں ہی کے دوران افواہوں اور سازشوں نے گھیر ے میں لے لیا ظاہری طور پر کشیدگی اتنی بڑھ گئی کہ یوں لگتا تھا کہ نواز شریف حکومت اب گئی تب گئی اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے پیر صاحب پگارا نے بھی پیشن گوئی کردی کے کہ مارچ میں ڈبل مارچ ہوگا ۔(1) اسکے بعد جنرل اسلم بیگ اور نواز شریف کے درمیان مستقل جنگ کی سی صورت ہی رہی اگر چہ کہ مرزا اسلم بیگ نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح معاملات بہتر ہوجائیں۔ مگر مرزا اسلم بیگ کے ساتھ نواز شریف کی جنگ کا خاتمہ اس وقت ہوا جب مرزا اسلم بیگ اپنی مدت ملازمت مکمل کرکے ریٹائیرڈ ہوگئے جنرل مرزا اسلم بیگ کے بعد ان کے جانشین جنرل آصف نواز جنجوعہ اگر چہ کے ایک پیشہ ور فوجی تھے اور فوج کے معاملات تک ہی اپنے آپ کو محدود رکھنا چاہتے تھے مگر یہ میاں نواز شریف ہی تھے کہ جنہوں نے اپنے ارادوں میں جنرل آصف نواز کو حائل دیکھ کر ان کے خلاف مہم چلانے کی بھر پور کوشش کی نواز شریف نے پہلے تو جنرل آصف نواز جنجوعہ کو خریدنے کی کوشش کی جو اس طرح سے تھی ۔ 


ٌٌٌٌ* چیف آف آرمی اسٹاف جنرل آصف نواز جنجوعہ کو رشوت دینے کامعاملہٌٌٌٌ*


مرز اسلم بیگ کے رخصت ہوجانے کے بعد جنرل آصف نواز کو چیف آف آرمی اسٹاف بنا یا گیا تو اس وقت چونکہ صدر مملکت اور وزیر اعظم میں کوئی اختلاف نہیں تھا اس لئے صدر نے پہلے ہی سے میاں نواز شریف کو آگاہ کردیا اس کے بعد سے نواز شریف اور ان کا حلقہ اس امر کے لئے کوشاں ہوگیا کہ کسی نہ کسی طرح جنرل آصف نواز کو خریدا جائے یا ان کے گلے میں نکیل ڈالی جائے مگر اس کا موقع ان کو کسی بھی طرح سے نہیں مل رہا تھا ایسے ہی ایک موقع کی روداد معروف صحافی اظہر سہیل نے اپنی کتاب ایجنسیوں کی حکومت اور جنرل آصف نو از مرحوم کے بھائی شجاع نواز نے اپنی کتاب بے نیام تلواریں میں کچھ اس طرح سے بیان کی ہے ۔


جنرل آصف نواز
 چیف آف آرمی اسٹاف
کو
 B.M.W
 کار کی رشوت کی پیشکش



میاں شریف نے جنرل آصف نواز کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جنرل صاحب یہ دونوں آپ کے چھوٹے بھائی ہیں اگر کبھی غلطی کریں تو گھر بلوا کر چھوٹے بھائیوں کی طرح ڈانٹ ڈپٹ کرلیجیے گا یا پھر مجھ تک شکایت پہنچا کر ان کا حال دیکھئے گا مگر میری ایک درخواست ہے کہ ان کو سب کے سامنے ذلیل مت کیجیے گا ہمیشہ یہ سمجھنا کے یہ آپ کے سگے چھوٹے بھائی ہیں میں بھی ان کے اور آپ کے درمیان کوئی فرق روا نہیں رکھوں گا بلکہ میرے لئے یہ آپ سے چھوٹے ہیں اگر گھر میں انہیں کوئی چیز ملے گی تو پہلے اس پر آپ کا حق ہو گا۔ 
میاں شریف مرحوم نے ایک خوبصورت کیس میں بند نئی بی ایم ڈبلیو(B.M.W) گاڑی کی چابی جنرل آصف نواز جنجوعہ سابق چیف آف اسٹاف پاکستان آرمی کو پیش کرتے ہوئے کہا کہ جنرل صاحب یہ دونوں بھائی ان دنوں بی ایم ڈبلیو گاڑی لینے کی فکر میں ہیں میں اپنے دعوے کے ثبوت میں پہلی گاڑی کو لے کر دے رہا ہوں گاڑی باہر کھڑی ہوئی ہے یہ اس کی چابی ہے بس آپ ایک لمحے کو میرے سامنے اس میں بیٹھ کر میری آنکھوں کو ٹھنڈہ کریں گاڑی آپ کے گھر پہنچ جائے گی۔

نواز شریف پاکستان کے وزیر اعظم بن چکے تھے
 اور جنرل اسلم بیگ ریٹائرڈ ہو کر اپنے گھر واپس جا چکے تھے جنرل آصف نواز نے اس وقت اپنا عہدہ سنبھالا تھا معاملہ تھا کہ انکے اقتدار میں کوئی مداخلت نہ کرے جنرل آصف نوازکے عہدہ سنبھالتے ہی وزیر اعظم ہاوس میں ان کی دعوت کی گئی دعوت کے اختتام پرمیاں نواز شریف کے والد میاں شریف (مرحوم)نے جنرل آصف نوازکو علیحدہ کمرے میں چلنے کی دعوت دی اس کمرے میں میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کو بھی بلوایا گیا اور میاں شریف نے جنرل آصف نواز کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جنرل صاحب یہ دونوں آپ کے چھوٹے بھائی ہیں اگر کبھی غلطی کریں تو گھر بلوا کر چھوٹے بھائیوں کی طرح ڈانٹ ڈپٹ کرلیجیے گا یا پھر مجھ تک شکایت پہنچا کر ان کا حال دیکھئے گا مگر میری ایک درخواست ہے کہ ان کو سب کے سامنے ذلیل مت کیجیے گا ہمیشہ یہ سمجھنا کے یہ آپ کے سگے چھوٹے بھائی ہیں میں بھی ان کے اور آپ کے درمیان کوئی فرق روا نہیں رکھوں گا بلکہ میرے لئے یہ آپ سے چھوٹے ہیں اگر گھر میں انہیں کوئی چیز ملے گی تو پہلے اس پر آپ کا حق ہو گا۔ 
اس موقعہ پر انہوں نے ایک خوبصورت کیس میں بند نئی بی ایم ڈبلیو( BMW) گاڑی کی چابی جنرل صاحب کو پیش کرتے ہوئے کہا کہ جنرل صاحب یہ دونوں بھائی ان دنوں بی ایم ڈبلیو(BMW) گاڑی لینے کی فکر میں ہیں میں اپنے دعوے کے ثبوت میں پہلی گاڑی کو لے کر دے رہا ہوں گاڑ ی باہر کھڑی ہوئی ہے یہ اس کی چابی ہے بس آپ ایک لمحے کو میرے سامنے اس میں بیٹھ کر میری آنکھوں کو ٹھنڈہ کریں گاڑی آپ کے گھر پہنچ جائے گی چیف آف آرمی اسٹاف ا گر چے کہ ایک اکل کھرے اور سیدھے سادھے فوجی جوان تھے مگر اس عہدے تک پہنچتے پہنچتے انہوں نے گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا تھا مختلف فوجی عہدوں پر قائم رہے تھے اس دوران وہ لاتعداد افراد سے ملاقات کرتے رہے تھے اور انہوں نے ان سے ڈیل بھی کی تھی بطور کور کمانڈر انہوں نے دنیا دیکھی تھی انہوں نے اس صورتحال پر بڑے تدبر سے کام لیا شریف خاندان کی گھاتوں کا بڑے ہی مدبرانہ اندازمیں اس وقت جواب دیتے ہوئے اس گاڑی کو یا اس سے ملتے جلتے تحفے کو لینے سے انکار کردیا۔
اس واقعہ کے چند روز بعد انہوں ( جنرل آصف نواز)نے اپنے بعض ذاتی دوستوں کو پورا واقعہ سناتے ہوئے کہا ’’ میں تو ان لوگوں کی دیدہ دلیری پر لرز کر رہ گیا ہوں ، دیکھیے انہوں نے کتنی ہمت سے مجھے پہلے روز رشوت پر لگا نے کیء کوشش کی اس واقعہ کے بعد جنرل صاحب نے یہ بات اصولی طور پر طے کرلی کہ وہ میاں نواز شریف سے تعلقات بگاڑنے کی کوشش تو نہیں کریں گے مگر ان کے ساتھ معاملات محض سرکاری سطح پر چلائے جائیں گے ۔(1)
اسی معاملے کو سابق آرمی چیف جنرل آصف نواز کے چھوٹے بھائی شجاع نواز نے اپنی کتاب بے نیام تلواریں میں مزید وضاحت کے ساتھ کچھ یوں بیان کیا ہے ۔
ایک بار شریف خاندان کے سربراہ یعنی ان کے والد(اباجی مرحوم) نے ایک نجی تقریب منعقد کی جس میں ان دونوں بھائیوں( نواز شریف اور شہباز) کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جنرل آصف نواز سے پنجابی میں کہا کہ یہ دونوں تمہارے چھوٹے بھائی ہیں اگر یہ کچھ گڑ بڑ کریں تو مجھے بتانا میں انہیں ٹھیک کردوں گا ۔ ناشتہ کی میز پر جو کہ اس موقع کے لئے ترتیب دیا گیا تھا جنرل نواز زیادہ تر خاموش ہی رہے۔ 
ایک بار نواز اور ان کے حواریوں کی مجلس میں جس میں ISIکے بریگیڈئیر امتیاز بھی شامل تھے نواز شریف نے آرمی کے سربراہ کے ضدی یا مغرور ہونے پر اعتراض کیا جس کے جواب میں ISIکے بریگیڈئیر امتیاز نے کہا کہ ہم انہیں بھی گل حسن بنا دیں گے یعنی زیڈ اے بھٹو کے دور میں جیسے گل حسن کو ہٹایا گیاتھا۔ جنرل آصف نواز جو ایسی باتوں کو دل میں رکھنا نہیں جانتے تھے اس دھمکی کو ایک فوجی اجتماع میں دہرایا اور کہا کہ ’’کیا آپ کسی کو اپنے سربراہ کے ساتھ 
ایسا کرنے دیں گے؟ 

اور اس طرح دونوں میں ہم آہنگی یا بے تکلفی پیدا نہ ہوسکی ۔ شریف نے دوسرے جنرلوں کو خوش کرنا شروع دیا۔ پتہ چلا کہ لاہور کے کور کمانڈر کے بھائی کو انہوں نے ایک صنعتی فیکٹری کا جازت نامہ دیدیا اس کی وجہ سے ان کور کمانڈر صاحب کو خاصی جھاڑ پڑی یہ اطلاع بھی ملی کہ وزیر اعظم نے کئی جنرلوں کو (BMW)گاڑیاں تحفے میں پیش کیں۔
ایک بار شہباز شریف آرمی چیف جنرل آصف نواز کے پاس آئے اور انہیں BMW گاڑی کی چابیاں پیش کرتے وقت کہنے لگے یہ ابا جی نے آپ کو تحفہ بھیجا ہے جنرل آصف نواز نے شکریے کے ساتھ تحفہ قبول کرنے سے انکار کردیا ۔پھر ایک بار وزیر اعظم نے خود ایکBMWکی چابی جنرل آصف نواز کو پیش کی جو جنرل آصف نواز نے یہ کہتے ہوئے واپس کردی ’’ شکریہ سر۔۔ میں اس میں خوش ہوں جو میرے پاس ہے ۔
نواز شریف نے بعد میں کہا کہ آصف نواز بہت ضدی انسان ہیں ۔ بعد میں یہ بھی کہا گیا کہ یہ حکومت پر الزام لگاتے ہیں کہ یہ غلط روی کا شکار ہیں بعد میں آصف نواز نے مجھے بتایا کہ شریف کابینہ کے کئی وزراء اور دیگر لوگ نواز سے قطعاً غیر مطمئن تھے اور ان سے چھٹکارا پانا چاہتے تھے۔ نواز شریف کو یقین تھا کہ وزیر اعظم کو اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ کسی بھی وقت اور کسی کو بھی فوج کے کسی عہدہ پر مقرر کرسکتا ہے لیکن انہوں نے یہ بھی کہاکہ انہوں نے جنرل نواز یا جنرل مشرف کے دور میں کبھی ایسا نہیں کیا ایک مزید اطلاع کے مطابق ایک بار نواز اور ان کے حواریوں کی مجلس میں جس میں ISIکے بریگیڈئیر امتیاز بھی شامل تھے نواز شریف نے آرمی کے سربراہ کے ضدی یا مغرور ہونے پر اعتراض کیا جس کے جواب میں ISIکے بریگیڈئیر امتیاز نے کہا کہ ہم انہیں بھی گل حسن بنا دیں گے یعنی زیڈ اے بھٹو کے دور میں جیسے گل حسن کو ہٹایا گیاتھا۔ جنرل نواز جو ایسی باتوں کو دل میں رکھنا نہیں جانتے تھے اس دھمکی کو ایک فوجی اجتماع میں دہرایا اور کہا کہ ’’کیا آپ کسی کو اپنے سربراہ کے ساتھ ایسا کرنے دیں گے؟
 (3)
بعد میں جنرل آصف نواز اور نواز شریف کے درمیان تعلقات اس قدر بد ترین سطح پر پہنچ گئے کے جب جنرل آصف نواز اگر اسلام آباد آتے تو ان کے ساتھ فوجی کمانڈوز کی ایک گاڑی بھی ہوتی تاکہ نواز شریف اور ان کے رفقاء کوئی شرارت نہ کرسکیں
 (4)
8جنوری1993ء کو اس وقت کے آرمی چیف جنرل آصف نواز جنجوعہ کا انتقال اچانک ہو گیا ۔ حکومت کی مثلث( صدر،وزیر اعظم، آرمی چیف ) میں سب سے زیادہ اہم تھے۔ ان کی اچانک وفات نے ملک کے سیاسی حالات خصوصاً صدر اور وزیر اعظم کے باہمی تعلقات پر نہایت دوررس اور گہرا اثر ڈالا ۔ یہ تقریباً سب کو معلوم تھا کہ وزیر اعظم اور آرمی چیف ایک دوسرے کو ناپسند کرتے ہیں اور ان کے باہمی تعلقات کشیدہ ہیں۔
 (5) 
).
..حوالہ جات...( 
(1) ایجنسیوں کی حکومت صفحہ نمبر67/67/68 مصنف ا ظہر سہیل 
(2) بے نیام تلواریں صفحہ نمبر262. مصنف شجاع نواز
(3) ایجنسیوں کی حکومت صفحہ نمبر78 مصنف ا ظہر سہیل 
(4) پاکستان انقلاب کے دہانے پر صفحہ نمبر139 مصنف روئیداد خان
** ** **





نواز شریف کی ضدیں 
اور
جنرل آصف نواز جنجوعہ کے جانشین کی تلاش




جنرل آصف نواز جنجوعہ کی اچانک وفات کے بعد سوال یہ پیدا ہوا کہ ان کا جانشین کسے بنایا جائے ؟ آئین کی آٹھویں ترمیم کی رو سے صدر اور صرف صدر، آرمی چیف کو اپنی صوابدید کے مطابق مقرر کرنے کا مجازہے جنرل آصف نواز جنجوعہ کی اچانک وفات سے پورے ملک کو صدمہ ہوا تھا ۔ سابق وفاقی سیکرٹری روئیداد خان اپنی کتاب پاکستان انقلاب کے دہانے پر میں لکھتے ہیں ۔۔۔
جنرل آصف نواز کی مرگ ناگہاں سے متعلق خبر گویا جنگل کی آگ ہوگئی۔ 8جنوری کو جس روز یہ سانحہ گزرا ۔ جمعتہ المبارک تھا ۔ نماز جمعہ کے کچھ دیر کے بعد یہ خبر تمام ملک میں پھیل گئی پاک فوج کے پہلے غیر متنازعہ جرنیل کی موت پر ہر آنکھ اشکبار اور ہر روح سوگوار تھی ۔ احوال یہ تھا کہ بقول جلیل ہاشمی
گرا ہے جھوم کے رہوار سے جواں ایسا
دھواں قبیلے کے خیموں میں بھر گیا یارو
مگر بعض سیاسی بد بخت اس موت پر خوش بھی تھے ۔ قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر حاجی محمد نواز کھوکھر نے اگلے روز بڑے افسوس کے ساتھ مجھے یہ واقعہ سنایا کہ انہیں اس سانحہ کی اطلاع سب سے پہلے بریگیڈئیر امتیاز نے دی، جس کے فوری بعد چودھری نثار کا فون آیا جنہوں نے کھوکھر صاحب سے فوری طور پرآرمی ہاؤس پہنچنے کے لئے کہا۔اتنے میں بریگیڈئیر امتیاز اپنی گاڑی لئے انکے گھر آپہنچے جس کے بعد دونوں حضرات بریگیڈئیر امتیاز ہی کی گاڑی میں آرمی ہاؤس پہنچے جہاں جنرل آصف نواز کی نعش دیدار عام کے لئے رکھی تھی۔ مگر اس سے پہلے کہ یہ مرحوم کی شکل دیکھتے ، چودھری نثار علی دونوں کو ایک طرف لے گئے اور بریگیڈئیر امتیاز سے پوچھا ’’کیا آپ نے بات کرلی ہے ‘‘کھوکھر کے بقول اس موقع پر چودھری نثار علی کے بھائی جنرل افتخار بھی موجود تھے ۔ مگر وہ خاموش رہے ‘‘ بریگیڈئیر امتیاز نے جواب دیا کہ نہیں ابھی تک بات نہیں ہوئی‘‘ اس پر چودھری نثار علی نے کہاکہ کھوکھر صاحب صدر غلام اسحاق خان آپ کی بات سنتے ہیں ، مہربانی کرکے انہیں اس بات پر آمادہ کیجیے کہ جنرل آصف نواز کی موت سے پیدا ہونے والے خلا کو لاہور کے کور کمانڈر جنرل محمد اشرف کے ذریعہ پر کریں ۔ دیکھیے مرنے والا تو مر گیا ، اب ہمیں ایسا انتظام کرنا ہے کہ ہمارا اپنا آدمی اس عہدہ پر متمکن ہو تاکہ دوبارہ جنرل آصف نواز والی صورتحال پیدا نہ ہو۔ (1)
جب میں آصف نواز کے جنازے میں شرکت اور ان کی نماز جنازہ ادا کرکے اپنی موٹر میں ایوان صدر جارہا تھا تو میرے ذہن میں یہی سوال ابھر رہا تھا کہ اب آصف نواز جنجوعہ کا جانشین کو ن ہوگا؟ میں جیسے ہی ایوان صدر پہنچاصدر نے مجھ کو طلب کرلیا انہوں نے مجھ سے کچھ کہا نہیں تھا لیکن مجھے اندازہ تھا کہ اس وقت ان کو آصف نواز جنجوعہ کے جانشین کو بلا تاخیر اور فی الفور مقرر کرنے کی فکر دامن گیر ہوگی ۔ کیونکہ فج سپہ سالار کے بغیر نہیں رہ سکتی ہے ، فوج کو ہر لمحے اور ہر لحظے معلوم ہونا چاہیئے کہ اس کا سپہ سالار کون ہے ۔ صدر اور میں نے فوج کے تقریباً نصف درجن اعلیٰ افسروں کے کوائف کارکردگی ( ڈوسیرز) غور سے دیکھے اور یہ جائیزہ لیا کہ:۔ان کے بارے میں اعلیٰ افسروں کی رائے کیا ہے؟
دوران جنگ و امن ان کی کارکردگی کیسی رہی تھی؟
ان کی شہرت کیسی ہے؟
دوسرے انہیں کس نگاہ سے دیکھتے ہیں ؟ 
اس پوری مشق کے دوران ہم نے بری فوج کے اس وقت کے چیف آف جنرل اسٹاف لیفٹنٹ جنرل فرخ کو چنا میں چلنے لگا تو صدر نے کہا اگر چہ آرمی چیف کا تقرر میرا صوابدیدی اختیار ہے پھر بھی میں دن میں کسی وقت وزیر اعظم کی رائے بھی معلوم کرلوں گا ۔
میں صدر کے دفتر سے خوش خوش باہر نکلا کہ ہم نے اتنا بڑا فیصلہ اتنی جلد اور صرف اورصرف استحقاق اور قابلیت کی بناء پر کرلیا۔ مجھے یقین تھا کہ سب طرف سے اس فیصلے کا خیر مقدم ہوگا ۔ دوپہر کے کھانے کے بعد صدر اور میں صدارتی ہیلی کاپٹر میں آصف نواز جنجوعہ کے آبائی گاؤں ان کی تدفین کی رسوم میں شامل ہونے چلے گئے ۔ تدفین مکمل ہوئی تو میں نے دیکھا کہ صدارتی ہیلی کاپٹر کے پاس صدر اور وزیر اعظم چپ چپ کھڑے ہیں ، پھر بھی مجھے محسوس نہ ہوا کہ کچھ گڑ بڑ ہے ۔ میں نے سوچا کہ غلام اسحاق خان اور محمد نواز شریف دونوں شرمیلے سے کم گو قسم کے آدمی ہیں وہ بہت کم کسی سے کھلتے ہیں اور دونوں باتوں کے رسیا نہیں ۔ واپسی میں بھی صدر تمام راستے خاموش اور اپنے خیالوں میں گم رہے ۔ ایوان صدر پہنچ کر میں ان سے رخصت ہوا اور اپنے گھر چلا گیا۔
میں سارے دن کی مصروفیت سے بے حد تھک گیا تھا اور جلدی سے رات کا کھانا 
کھا تے ہی سونا چاہتا تھا کہ اتنے میں ٹیلی فون کی گھنٹی بجی ،

 میں نے فون اٹھایا تو معلوم ہوا دوسری طرف چودھری نثار علی خان بول رہے ہیں انہوں نے کہا وہ ایک نہایت اہم قومی معاملے میں مجھ سے فورا ملنا چاہتے ہیں ان کے لب و لہجہ سے میں نے اندازہ لگایا کہ ان کا مجھ سے فوراً ملنا واقعی بے حد ضروری ہے چنانچے میں نے اپنے گھر کے اسٹڈی روم میں ان کا خیر مقدم کیا اور سبز چائے کا پیالہ پیش کیا۔ انہوں نے مجھے بتلایا کہ دن میں صدر کی ایک ناخوش گوار قسم کی ملاقات ہوئی ہے کیونکہ وزیر اعظم کو جنرل فرخ کی نامزدگی برائے آرمی چیف کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں ۔ اگر صدر نے اس تقرری پر اصرار کیا تو وزیر اعظم مستعفی ہو جائیں گے ، اس لئے کہ وزیر اعظم اور جنرل فرخ ایک ساتھ نہیں چل سکتے ہیں اور اس طرح ملک ایک سنگین بحران سے دوچار ہو جائے گا۔
میں نے چوہدری نثار علی خان سے پوچھا : آخر وزیر اعظم کو جنرل فرخ کی تقرری پر اعتراض کیا ہے ؟ 
چوہدری نثار علی خان نے جواب دیا : وزیر اعظم سمجھتے ہیں کہ جنرل آصف نواز جنجوعہ مرحوم سے ان کے تعلقات بگاڑنے کے لئے تمام ترذمہ دار جنرل فرخ ہیں 
میں یہ سن کرحیران رہ گیا۔ 
چوہدری نثار علی خان نے کہا :کہ ایک ہفتہ پہلے مجھ میں اور ان میں صدر اور وزیر اعظم کو ایک دوسرے کے قریب رکھنے کا جو سمجھوتہ ہوا تھا اس کے تحت میں کچھ کروں ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ سوائے جنرل فرخ کے صدر اور جس کو بھی آرمی چیف لگائیں وہ تقرری وزیر اعظم کے لئے قابلِ قبول ہو گی ۔ 
میں نے سوچا کہ معاملہ اگر اتنا سنگین ہے اور جنرل فرخ کی تقرری سے مملکت کے دو اہم ستونوں صدر اور وزیر اعظم کے مابین ناچاقی پیدا ہوتی ہے تو پھر صدر کو اپنے انتخاب پر اصرار کے بجائے وزیر اعظم کی بات مان لینی چاہئے۔
میں نے چوہدری نثار علی سے کہا کہ میں اگلی صبح صدر سے بات کروں گا۔ 
اگلی صبح ایوان صدر جاتے ہی میں صدر سے ملا ۔ صدر نے تصدیق کی کہ ہاں گزشتہ کل میری وزیر اعظم سے ایک ناکام میٹنگ ہوئی تھی ، جس میں وزیر اعظم نے دھمکی دی تھی کہ اگر آپ نے جنرل فرخ کو آرمی چیف لگایا تو میں جنرل فرخ سے تعاون نہیں کروں گا ۔ میں نے صدر کو مشورہ دیا کہ بات آگے بڑھانے اور وزیر اعظم سے ٹکرانے سے کیا فائدہ ؟
صدر نے وزیر اعظم کے شدید منفی ردعمل اور میری بروقت مداخلت کے پیش نظر اپنے فیصلے پر نظرثانی کرنا مان لیا۔ انہوں نے جنرل فرخ کی تقرری پر اصرار چھوڑ دیا ۔ چنانچہ صدر اور میں نئے آرمی چیف کیتلاش میں مصروف ہوگئے۔ ہم نے از سر نو اعلیٰ ترین فوجی افسروں کے کوائف کو کھنگالا تو اس مرتبہ ہماری نظر انتخاب لیفٹنٹ جنرل عبدالوحید کاکڑ پر پڑی ۔ میں نے صدر سے کہا کہ اس تقرری پر یہ اعتراض ہو سکتا ہے کہ آپ نے اپنے ہم نسل پشتون کو آرمی چیف مقرر کرکے حکومت کے مثلث وزیر اعظم کے خلاف اپنی پوزیشن کو زیادہ مضبوط بنا لیا ہے ۔ غلام اسحاق خان نے جواب دیا : میرا پوراماضی گواہ ہے کہ میں نے آج تک کوئی فیصلہ صوبائی عصیبت کی بنا پر نہیں کیا ۔ لہٰذااگر اس تقرری سے مجھ پر صوبائی عصبیت کا الزام لگتا ہے تو لگا کرے ، مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے ‘‘۔ میں نے یہ سنا تو اطمنان کا سانس لیا چلو صدر کی دانشمندی اور فہم و فراست سے صدر اور وزیر اعظم کے درمیان ٹکراؤ کا خطرہ ٹل گیا ۔ کچھ دیر کے بعد وزیر اعظم ایوان صدر آئے تو انہیں جنرل عبدالوحید کاکڑ کے بارے میں بتلایا گیا ۔ پھر لیفٹنٹ جنرل عبدالوحید کاکڑ کو ایوان صدر بلا کر انہیں نیا آرمی چیف بننے کی خوشخبری سنائی گئی ۔ چوہدری نثار علی خان اور وزیر اعظم کے دوسرے ساتھیوں نے مجھ کو مبارکباد دی کہ آپ کی بروقت مداخلت نے ملک کو ایک سنگین بحران سے بچا لیا ۔ چوہدری نثار علی خان نے مجھ سے یہاں تک کہا کہ سوئیزر لینڈ سے واپسی پر وزیر اعظم خود صدر کے پاس جاکر آرمی چیف کی تقرری میں ان ( وزیر اعظم ) کی رائے کو ملحوظ خاطر رکھنے پر صدر کا شکریہ ادا کریں گے۔ میں ایوان صدر سے خوش خوش رخصت ہوا اور یہ سمجھا کہ حالات سدھر گئے ہیں مجھے کیا معلوم تھا کہ اس کے بعد چوہدری نثار علی خان نے کیوں مجھ سے دوبارہ رابطہ قائم نہیں کیا ۔ اگر وہ رابطہ کرلیتے تو کیا کچھ فرق پڑ جاتا ؟ خدا ہی جانے ۔
جلد ہی معلوم ہو گیا کہ وزیر اعظم عبدالوحید کاکڑ کے آرمی چیف مقرر ہونے سے بھی خوش نہیں ، ان کی نظر کسی اور پر تھی۔ آصف نواز کے انتقال اور جنرل فرخ کی نامنظوری کے بعد کسی اور کو آرمی چیف دیکھنا چاہتے تھے جب ایسا نہیں ہوا تو انہوں نے آئین میں آٹھویں ترمیم کی تنسیخ کی مہم تیز سے تیز تر کردی ، کیونکہ اس ترمیم سے صدر کو آرمی چیف کی تقرری کا صوابدیدی اختیار حاصل تھا۔(3)



)...حوالہ جات...(
(1) ایجنسیوں کی حکومت صفحہ نمبر77 مصنف ا ظہر سہیل 
(2) پاکستان انقلاب کے دہانے پر صفحہ نمبر139/ مصنف روئیداد خان
(3) بے نیام تلواریں صفحہ نمبر260/261/262. مصنف شجاع نواز
(4) پاکستان انقلاب کے دہانے پر صفحہ نمبر140/141 مصنف روئیداد خان



** ** **

No comments:

Post a Comment