اتفاق گروپ کی جانب سے لئے گیے قرضوں کی تفصیلات .................................... نیب کی جانب سے شریف فیملی کے خلاف مقمات


 مختلف ادوار میں اتفاق گروپ کی جانب سے لئے گیے قرضوں کی تفصیلات



 ء1981 میں وزیر خزانہ بننے کے بعد:
 کل قرضے کی رقم  25.39کروڑ روپے
.1983.....1
پہلی باروزیر اعلیٰ بننے کے بعد
    کل قرضے کی رقم  84.30کروڑ روپے
1985..2
 دوسری بار وزیر اعلیٰ بننے کے بعد
   کل قرضے کی رقم   225.10کروڑ روپے
1989..3
پہلی بار وزیر اعظم بننے کے بعد
    
 اپریل993 1میں کل قرضے کی رقم    570.50کروڑ روپے۔۔۔
  دسمبر1993 میں کل قرضے کی رقم  614.84کروڑ روپے
دوسری بار وزیر اعظم بننے کے بعد  
6اس کے بعد کل قرضے کی رقم  1200کروڑ یا 12ارب روپے کا قرضہ
اس اعتبار سے ہی مزید قرضوں کا حصول ان کے لئے اس لئے بھی آسان تھا کہ اتفاق گروپ کے پاس ملک کی ایک بڑی سیاسی قوت تھی ایسی قوت جس کے اشاروں پر بہت کچھ ہوسکتا تھا یہ بات ریکارڈ کا حصہ ہے کہ اتفاق گروپ کی جائدادوں میں اضافہ اس خاندان کے پاس وزارت خزانہ اور وزارت اعلیٰ کے آنے کے بعد ہوا اس کی بنیادی وجہ اقتدار کی ان  کے پاس موجودگی تھی اس کی وجہ سے انہوں نے بینکوں سے انتہائی آسان شرائط پرقرضے حاصل کئے 1990ء میں اسٹیٹ بینک کی جانب سے جاری شائع کردہ رپورٹ کے مطابق 230 ارب روپوں کے قرضے جاری کئے تھے ان میں سے 1200،افراد ایسے تھے جنہوں نے دس لاکھ روپوں سے زائد کے قرضے حاصل کئے تھے۔
ایک اطلاع کے مطابق ان میں سے سب سے زائد قرضے حاصل کرنے والاگروپ اتفاق گروپ تھا اس اعتبار سے ہی ان قرضوں کا حصول ان کے لئے اس لئے بھی آسان تھا کہ اتفاق گروپ کے پاس ملک کی ایک بڑی سیاسی قوت تھی ایسی قوت جس کے اشاروں پر بہت کچھ ہوسکتا تھا یہ بات ریکارڈ کا حصہ ہے کہ اتفاق گروپ کی جائدادوں میں اضافہ اس خاندان کے پاس وزارت خزانہ اور وزارت اعلیٰ کے آنے کے بعد ہوا اس کی بنیادی وجہ اقتدار کی ان کے پاس موجودگی تھی اس اقتدار کی وجہ سے انہوں نے بینکوں سے انتہائی آسان شرائط پرقرضے حاصل کئے
پاکستان کی تاریخ کی سب سے پہلی نادہندگان کی لسٹ جو کے عبوری وزیر اعظم معین قریشی کے دور میں جاری کی گئی اس لسٹ کے مطابق پاکستان میں 85ئسے1993ء تک 244قرضے جن کی مالیت4724تھی معاف کئے گئے معین قریشی کے دور میں جاری کردہ لسٹ کے مطابق اس وقت تک اتفاق گروپ 83 ملین روپوں کا نادہندہ تھا.
جبکہ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور میں جاری کردہ نادہندگان کی فہرست کے مطابق اتفاق گروپ کی جانب سے بینکوں سے حاصل کردہ کل قرضوں کی مالیت تین ہزار چھ سو 
75 ملین روپے تھی جس میں سے اتفاق گروپ دو 2 ہزار8 سو 91 ملین روپوں کا نادہندہ تھا جبکہ 1997ء میں ملک معراج خالد کی عبوری حکومت کی جانب سے شائع کردہ لسٹ کے مطابق اتفاق گروپ 3 ہزار13 ملین روپوں کا نادہندہ تھا۔
نواز شریف اور ان کے خاندان نے ضیاء الحق دور میں اربوں روپوں کے قرضے حاصل کئے اور تھوڑا سا سرمایہ پاکستان میں لگا کر باقی رقم ملک سے باہر منتقل کردی ۔ قرضوں کے حصول کی رفتار کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ شریف خاندان پر 1981ئمیں 40ملین روپے کے قرضے تھے جبکہ دس سال کے عرصے میں قرضوں میں اتنا زیادہ اضافہ ہوا کہ 1991ئمیں ان کا حجم 614 کروڑ روپے تک پہنچ چکا تھا ۔ تمام بینک دباؤ اور جھوٹ کے تحت ان کو قرضے دیتے تھے اور یہ معاشی اصولوں کو روندتے ہوئے اور تمام بینکوں کو دیوالیہ پن کے قریب چھوڑتے ہوئے اپنی ذاتی سلطنت کو مضبوط سے مضبوط تر بناتے گئے نواز شریف نے اپنی وزارتِ خزانہ پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ( دو مرتبہ) اور اپنی پہلی وزارتِ عظمیٰ کے ابتدائی چند مہینوں میں نہ صرف اپنی انڈسٹری کے لئے قومی بینکوں سے وسیع پیمانے پر قرضہ حاصل کیا بلکہ تقریباً ساڑھے تین ہزار ایسے لوگوں کو بھی قرضہ دلوایا ، جنہوں نے بینکوں کے ساتھ جھوٹ بولا تھا اور انڈسٹریز لگانے کے بجائے انہوں نے یہ پیسہ بیرونِ ملک منتقل کردیا ۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس مذکورہ دورانیے میں نواز شریف کی وساطت سے 60ارب روپے کے قرضے جاری کئے گئے اس کا براہ راست اثر ملکی معیشت پر پڑا اور بینکوں کی کارکردگی بہت زیادہ متاثر ہوئی۔
نواز شریف نے اپنے پہلے اقتدار کے آخری چند ماہ میں برادرز شوگر ملز، اتفاق فونڈریز اور اتفاق گروپ ملز کو نہ صرفNITسے 275ملین روپے کے قرضے دلوائے بلکہ کوآپریٹیو اسکینڈل کے بعد برادرز شوگر ملز اور دیگر کمپنیوں نے مسلم کمرشل بینک ( اس وقت منشا گروپ کے پاس بینک جا چکا تھا)NITکے ذریعے5ملین روپے کہ کم مدتی قرضے لئے اور پھر اسی روز اس گارنٹی پر 5ملین روپے کا مزید قرضہ ان کارخانوں کو دے دیا گیا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اپریل اور جولائی میں NIT نے اتفاق فونڈری کو40 اور50ملین روپے کے دو کم مدتی قرضے بھی دئیے تھے ۔ یہ سب قرضے برادرز اسٹیل کو اس سال 4جون کو 6ملین کا نادہندہ قرار دینے کے بعد NITہی کی جانب سے جاری کیے گئے۔(3)جب عبوری وزیر اعظم معین قریشی نے جن کے نام کو خود نواز شریف نے اس وقت منتخب کیا تھاجب نئے عبوری وزراعظم کے چناؤ کے لئے موزوں افراد کو تلاش کیا جارہا تھا مگر وزیر اعظم بننے کے بعد معین قریشی نے قرض دیندگان کی فہرست بینکوں سے منگوا کر چیک کی تو اس میں سر فہرست اتفاق گروپ تھا جس کے باعث انہوں نے مجبوراً عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے دباؤ پر اس طرح کی قانون سازی کی۔
3 جولائی کو ایف آئی اے نے اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا کہ یونس حبیب کی ٹیلی فون پر دی ہوئی ہدایت پر قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مہران بینک لاہور نے ایک دن میں شریف گروپ کی چوہدری شوگر ملز کو 4کروڑ ،49لاکھ روپے کا قرضہ جاری کیا چوہدری شوگر ملز نے ایک ہزار روپے سے بینک میں اپنا اکاؤنٹ کھولااور اسی دن بغیر کسی سیکیورٹی کے اسے یہ قرضہ جاری کردیا گیا4 جولائی کو نصیر اللہ بابر نے اسلام آبادمیں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف نے اپنے خاندان اوردوستوں کے لیے 20کروڑ کے قرضے حاصل کرکے مہران بینک کو دیوالیہ کردیا ۔ چوہدری شوگر ملز‘ پاک پنجاب کارپیٹس۔ حبیب وقاص شوگر ملز اور ظہور ٹیکسٹائل ملز کو ناجائز اثرورسوخ استعمال کرکے بغیر سیکیورٹی کے قرضے دلائے گئے جن میں سے کچھ ہوشیاری کے ساتھ اتفاق فاؤنڈری کو منتقل کر دیے گئے۔(1)
)...حوالہ جات...(
(1)بے نظیر حکومت کا عروج و زوال صفحہ نمبر 223 مصنف پروفیسر غفور احمد
** ** **
معین قریشی کے دور میں
جاری کردہ لسٹ کے مطابق نادہندگان
پاکستان کی تاریخ کی سب سے پہلی نادہندگان کی لسٹ جو کے عبوری وزیر اعظم معین قریشی کے دور میں جاری کی گئی اس لسٹ کے مطابق پاکستان میں 85ئسے1993ء تک 244قرضے جن کی مالیت4724تھی معاف کئے گئے۔ معین قریشی کے دور میں جاری کردہ لسٹ کے مطابق اس وقت تک اتفاق گروپ 83 ملین روپوں کا نادہندہ تھا.
جبکہ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور میں جاری کردہ نادہندگان کی فہرست کے مطابق اتفاق گروپ کی جانب سے بینکوں سے حاصل کردہ کل قرضوں کی مالیت تین ہزار چھ سو 75 ملین روپے تھی جس میں سے اتفاق گروپ دو 2 ہزار8 سو 91 ملین روپوں کا نادہندہ تھا جبکہ 1997 ء میں ملک معراج خالد کی عبوری حکومت کی جانب سے شائع کردہ لسٹ کے مطابق اتفاق گروپ 3 ہزار13 ملین روپوں کا نادہندہ تھا۔

نواز شریف اور ان کے خاندان نے ضیاء الحق دور میں اربوں (روپوں) کے قرضے حاصل کئے اور تھوڑا سا سرمایہ پاکستان میں لگا کر باقی رقم ملک سے باہر منتقل کردی ۔ قرضوں کے حصول کی رفتار کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ شریف خاندان پر 1981ئمیں 40ملین روپے کے قرضے تھے جبکہ دس سال کے عرصے میں قرضوں میں اتنا زیادہ اضافہ ہوا کہ 1991ئمیں ان کا حجم 614 کروڑ روپے تک پہنچ چکا تھا ۔ تمام بینک دباؤ اور جھوٹ کے تحت ان کو قرضے دیتے تھے اور یہ معاشی اصولوں کوروندتے ہوئے اور تمام بینکوں کو دیوالیہ پن کے قریب چھوڑتے ہوئے اپنی ذاتی سلطنت کو مضبوط سے مضبوط تر بناتے گئے نواز شریف نے اپنی وزارت خزانہ پنجاب کی وزارت اعلیٰ( دو مرتبہ) اور اپنی پہلی وزارت عظمیٰ کے ابتدائی چند مہینوں میں نہ صرف اپنی انڈسٹری کے لئے قومی بینکوں سے وسیع پیمانے پر قرضہ حاصل کیا بلکہ تقریباً ساڑھے تین ہزار ایسے لوگوں کو بھی قرضہ دلوایا ، جنہوں نے بینکوں کے ساتھ جھوٹ بولا تھا اور انڈسٹریز لگانے کے بجائے انہوں نے یہ پیسہ بیرونِ ملک منتقل کردیا ۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس مذکورہ دورانیے میں نواز شریف کی وساطت سے 60ارب روپے کے قرضے جاری کئے گئے اس کا براہ راست اثر ملکی معیشت پر پڑا اور بینکوں کی کارکردگی بہت زیادہ متاثر ہوئی۔(2)
نواز شریف نے اپنے پہلے اقتدار کے آخری چند ماہ میں برادرز شوگر ملز، اتفاق فونڈریز اور اتفاق گروپ ملز کو نہ صرفNITسے 275ملین روپے کے قرضے دلوائے بلکہ کوآپریٹیو اسکینڈل کے بعد برادرز شوگر ملز اور دیگر کمپنیوں نے مسلم کمرشل بینک ( اس وقت منشا گروپ کے پاس بینک جا چکا تھا)NITکے ذریعے5ملین روپے کہ کم مدتی قرضے لئے اور پھر اسی روز اس گارنٹی پر 5ملین روپے کا مزید قرضہ ان کارخانوں کو دے دیا گیا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اپریل اور جولائی میں NIT نے اتفاق فونڈری کو40 اور50ملین روپے کے دو کم مدتی قرضے بھی دئیے تھے ۔ یہ سب قرضے برادرز اسٹیل کو اس سال 4جون کو 6ملین کا نادہندہ
قرار دینے کے بعد NITہی کی جانب سے جاری کیے گئے۔(3)
جب عبوری وزیر اعظم معین قریشی نے جن کے نام کو خود نواز شریف نے اس وقت منتخب کیا تھاجب نئے عبوری وزراعظم کے چناؤ کے لئے موزوں افراد کو تلاش کیا جارہا تھا مگر وزیر اعظم بننے کے بعد معین قریشی نے قرض دہندگان کی فہرست بینکوں سے منگوا کر چیک کی تو اس میں سر فہرست اتفاق گروپ تھا جس کے باعث انہوں نے مجبوراً عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے دباؤ پر اس طرح کی قانون سازی کی۔ 
معروف صحافی صہیب مرغوب کے حوالے سے ایڈوکیٹ عتیق الرحمان نے اپنی کتاب طیارہ سازش کیس میں لکھا13 ہے کہ حبیب بینک ایمپریس روڈ برا نچ کی ایک فائل میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھی تھی جو اس وقت اسٹیٹ بینک کے ایک اعلیٰ افسر کی میز پر پڑی تھی۔ اس فائل کے مطابق میاں نواز شریف کو اس بینک کی مذکورہ شاخ نے 1992ء میں ڈیفالٹر قرار دے دیا تھا ۔(4)
17ستمبر1994ء کو سرکاری ذرائع نے بتایا کہ 180ارب روپے کے قرضوں کے نادہندگان کی فہرست عالمی بینک اور آئی ایم ایف کو فراہم کردی گئی ہے ۔ احتساب کے لیے ایک ایسا خود مختار سیل قائم کیا جائے گا جو بینک حکام کے خلاف بھی کارروائی کرنے کا حق رکھتا ہو۔ 
یہ امر واضح رہے پاکستان میں 1993ئسے لے کر 2000 ء تک قرض دہندگان کی تین فہرستیں شائع ہو چکی ہیں پہلی فہرست معین قریشی حکومت نے 1993ء میں دوسری بے نظیر حکومت نے اکتوبر1996ئمیں اور تیسری عبوری وزیر اعظم معراج خالد کی نگراں حکومت نے جنوری 1997ئمیں جاری کی ان فہرستوں میں سے آخری دو فہرستوں کے مطابق اتفاق گروپ کا نام ان قرض نا دہندگان کی لسٹ میں سب سے اوپر تھا۔ 
جب کے معین قریشی کے دور میں پاکستان کے امیر ترین افراد کی جو ڈائریکٹری
شائع کروائی گئی تھی اس کی نوعیت اس طرح کی ہے ۔

      1994     

ء کی لسٹ کے مطابق پاکستان کے امیر ترین افراد
(5)
نام
ااس وقت کی دولت 
(1) 

خواجہ محمد حکیم  28,43.13.715 ملین روپے
(2)

  خواجہ محمد جاوید  25,85,29,834 ملین روپے
(3) 

 شہباز شریف  12,74,85,359ملین روپے 
 (4)
ا افضل رضاقزلباش10,11,90,203.ملین روپے  
(5) 
امیر الدین فیراستہ,913,36,473ملین روپے
(6) 

 نورالدین فیراستہ 8,61,62,815ملین روپے
(7)

  محمد سعید  8,61,62,815ملین روپے
(8) 
 محمد یوسف 5,81,80.505ملین روپے
(9) 

 نواز شریف 662,70,6,619ملین روپے
10 

 محمد منیر نواز  5,77.16.619ملین روپے
(11)

  امبر سہگل 5,71,46,973ملین روپے
(12) 

 ایس طاہر حسین4,98,86,910ملین روپے
(13)
  جعفر علی فیراستہ 4,67,81,329,ملین روپے
(14) 

 امیر چن4,6117,850ملین روپے
(15)

  ناصر چن4,56,64,741ملین روپے
(16)  
غلام محمد فیکٹو 4,49,16,815ملین روپے
(17)
 

 خلیل اے ستار4,31,74,734ملین روپے
(18)
 ہارون طیب42,217,409ملین روپے
(19) 
 محمد نعیم 371,11,788ملین روپے
(20)
  

عباس سرفراز3,3706,248ملین روپے
(21) 
 حسین نواز میاں نواز شیرف کے بڑے بیٹے 3,28,56,813ملین روپے
(22) 
 میاں محبوب الٰہی 3,22,70,122ملین روپے
(23)

  محمد الیاس 318,93,547ملین روپے
یہ بات غور طلب ہے اس ڈائیریکٹری میں مسلم کمرشل بینک کے مالک میاں محمد منشاء کا نام سرے سے موجود ہی نہیں ہے یا تو انہوں نے ٹیکس ادا ہی نہیں کیا یا بہت کم ٹیکس ادا کیا تھا ۔
میاں نواز شریف ان کے بھائی شہباز شریف اور ان کے بیٹے حسین نواز کے نام اس فہرست میں اس لئے شامل کیے گئے کہ انہوں نے 1993ئمیں ٹیکس ادا کیا اگر چہ کہ میاں نوازشریف نے اس قدر بڑی دولت کے مالک ہونے کہ باؤجود صرف 3000 کے قریب دولت ٹیکس ادا کیا جو اس بات کا بین ثبوت تھا کہ پاکستان کے ٹیکس کے نظام میں جو جھول ہیں ان سے فائدے حاصل کیے گئے ہیں اگر چہ کہ عبوری وزیر اعظم معین قریشی نے جوپاکستان کے دولت مندوں کی لسٹ شائع کی تھی اس فہرست کے مطابق میاں نواز شریف نویں نمبر پر جب  کے شہباز شریف تیسرے نمبر پر اور میاں نواز شریف کے بیٹے حسین نواز شریف اکیسویں نمبر پرہیں اس طرح اگر اعداد شمار کے مطابق ترتیب دیا جائے شریف خاندان کو اس لسٹ کی مجموعی طور پرپہلی تین پوزیشن میں سے ایک پوزیشن ملنا چاہیے تھا یہ بات بھی قابل غور ہے۔
شریف خاندان کے سربراہ میاں شریف اور میاں نواز شریف کے سب سے چھوٹے بھائی عباس شریف کا اس فہرست میں نام نہیں ہے حالانکہ اتفاق گروپ کے بورڈ آف ڈائیریکٹرز کی لسٹ کا جائزہ لیا جائے تو ان سب حضرات کے نام اس لسٹ میں نمایاں نظر آئیں گے۔
اس فہرست کے مطابق ان افراد کے جو اثاثہ بتائے گئے تھے اس کے مطابق اور بعد میں جو اثاثے بنائے گئے ان کے مطابق ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ شریف خاندان کا نام بدستور پاکستان کے ٹیکس دینے والے اہم افراد میں شامل ہوتا مگر یہ نہیں ہوا گزشتہ 14برسوں کا ریکارڈ ملاحظہ کرلیجیے ٹیکس دہندگان کی لسٹ میں کہیں بھی اس خاندان کا نام نہیں ملے گا۔(6)
حوالے جات 
الائیڈ بینک کے صدر شوکت کاظمی کا انٹرویو۔

31اکتوبر کو الائیڈ بینک کے صدر شوکت کاظمی نے کراچی میں اپنے دفتر میں ایک روزنامے کے نمائندے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ 1990ئکے انتخابات سے قبل میاں نواز شریف نے الائیڈ بینک سے پانچ کروڑ روپے مانگے تھے جب میں نے یہ رقم دینے سے انکار کیا تو مجھے دھمکیاں دیں گئیں ۔(7)
)...حوالہ جات...(
(1)بدعنوانی کی حکومت صفحہ نمبر 293 مجاہد حسین
(2)نواز شریف اقتدار سے عتاب تک صفحہ نمبر418 پروفیسر غفور احمد
(3) بدعنوانی کی حکومت صفحہ نمبر 272 مجاہد حسین
(4) بدعنوانی کی حکومت صفحہ نمبر 293/292 مجاہد حسین
(5) شریف لٹیرے صفحہ نمبر 79 مصنف شاہد الرحمان 
(6)نواز شریف اقتدار سے عتاب تک صفحہ نمبر382 پروفیسر غفور احمد
(7)بے نظیر حکومت کا عروج و زوال صفحہ نمبر 433 مصنف پروفیسر غفور احمد
** ** **




   ShareThis